غلام محمد، جو “پٹھانے خان” کے نام سے مشہور ہوئے، ایک سرائیکی لوک گلوکار تھے جنہوں نے ہمیشہ خود کو حضرت خواجہ غلام فرید اور بابا بلھے شاہ سے منسوب رکھا۔ پٹھانے خان نے شہرت اپنی عمر کے آخری حصے میں حاصل کی۔ آپ کو ان کے نوجوانی کے دور کی کوئی ویڈیو ریکارڈنگ دستیاب نہیں ہوگی۔ ایک روایت کے مطابق، حضرت خواجہ غلام فرید کے “شرف” سے جب پٹھانے خان نے ان کے کافیاں پڑھی تو انہیں قومی ذرائع ابلاغ میں مقبولیت حاصل ہوئی۔ پٹھانے خان وہ شخصیت تھے جنہوں نے قدیم سرائیکی تصوف اور جدید دنیا کے درمیان پل کا کردار ادا کیا۔ آج، وفات کے 25 سال بعد بھی، پٹھانے خان دنیا بھر میں جانے جاتے ہیں۔

ان کا فنی سفر اس وقت شروع ہوا جب ان کے دو دوستوں نے انہیں حضرت خواجہ غلام فرید کے دربار، کوٹ مٹھن میں کافیاں پڑھتے ہوئے سنا۔ وہ انہیں ایک سٹیج پر لے گئے اور پہلی بار انہیں 50 روپے معاوضے کے طور پر دیے۔ ان کی یہ کافی ریکارڈ کی گئی اور ایک لیبل کے تحت جاری ہوئی۔ یہ کلام عوام میں کافی مقبول ہوا، جس کے بعد ان کے مزید مشہور کلام سامنے آئے جیسے:
“کیا حال سناواں دل دا”،
“جندڑی لٹی تیں یار سجن”،
“میرا رانجھن ہنر کوئی ہور”
اور
“واجے اللہ والی تار”۔

پٹھانے خان کے زمانے میں ان کا نام “پٹھانا خان” بولا جاتا تھا، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اسے تبدیل کرکے “پٹھانے خان” کر دیا گیا۔

پٹھانے خان ایک درویش صفت انسان تھے۔ چونکہ وہ صوفی ازم سے جڑے ہوئے تھے، اس لیے انہیں دولت کی کوئی پرواہ نہیں تھی۔ انہوں نے بڑے بڑے سٹیجز پر بغیر کسی معاوضے کے پرفارم کیا۔

انہیں حکومت پاکستان کی طرف سے “صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی” (Pride of Performance) سے نوازا گیا۔

جنرل ضیاء الحق پٹھانے خان کو خاص طور پر بلایا کرتے تھے اور تنہائی میں ان کی آواز میں کلام سنا کرتے تھے۔

تاریخی حوالوں سے ثابت ہوتا ہے کہ جنرل ضیاء نے کئی بار پٹھانے خان سے کہا:
“مجھ سے مانگو، کیا مانگتے ہو؟”
اور ہر بار پٹھانے خان یہی جواب دیتے:
“میرے علاقے کے غریبوں کا پیٹ بھر جائے۔”

پٹھانے خان نے اپنی پوری زندگی ریاض (مشق) کو کبھی ترک نہ کیا۔ حتیٰ کہ وفات کی آخری رات بھی، جب وہ کچھ بہتر محسوس کرنے لگے تو اپنے خادموں سے کہا:
“جاؤ، میرا ہارمونیم لے آؤ۔”
انہوں نے آخری لمحے تک ریاض نہیں چھوڑا۔

پٹھانے خان اکثر ریل گاڑی کے ذریعے سفر کیا کرتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ سفر کے دوران ہی ریاض شروع کر دیتے، اور مسافر ان کی آواز کے سحر میں آ جاتے اور سفر خوشگوار ہو جاتا۔

ایک جرمن خاتون پٹھانے خان پر ڈاکیومنٹری بنانے پاکستان آئیں۔ وہ کچھ دن ان کے پاس مقیم رہیں۔ چونکہ پٹھانے خان کو انگریزی نہیں آتی تھی، اس لیے انہوں نے اپنے دوست جناب یوسف جمال کو پابند کیا کہ وہ ان کے ساتھ رہ کر مہمانوں کی خدمت کریں۔ یوسف جمال صاحب بتاتے ہیں کہ ہم نے مہمانوں کی بہت خدمت کی۔ ایک دن ہم نے ناشتہ میں ان کو لسی پیش کی۔ جرمن خاتون نے پوچھا: “یہ کیا ہے؟”

یوسف جمال کو لسی کا انگریزی ترجمہ نہیں آتا تھا۔ انہوں نے پٹھانے خان سے پوچھا:
“اب میں کیا جواب دوں؟ اس کا تو کوئی انگریزی نام ہی نہیں ہے!”
پٹھانے خان نے مسکرا کر کہا:
“کہہ دو… یہ ‘وائٹ وسکی’ ہے!”


Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *